یہ واقعہ بچپن میں اپنے نانا ابّو (اللہ ان کو غریقِ رحمت کرے) سے چاروں مسالک کے اوپر ایک سوال کے جواب میں سنا تھا۔ یقیناً اُنھوں نے بھانپا ہو گا کہ دین سے متعلق کچھ عقائد میں میرے اندر شدت پسندی آرہی ہے، جس پر انھوں نے رواداری اور فرقہ واریت پر درس اپنے انداز میں دیا۔ تفصیل ہو بہو یاد نہیں مگر امید ہے کہ درس کا لب لباب آپ تک پہنچانے میں کامیاب ہو جاؤں گا۔
ایک دفعہ مالکی مسلک کے دارالعلوم کی ایک جماعت بطور مہمان لاہور آئی اور ان کی میزبانی کے فرائض جس مسجد کے زمہ لگے، اس میں نمازی، پاکستانیوں کی اکثریت کی طرح، امام ابو حنیفہ رح کی تعلیمات کی پیروی کرتے ہوئے امام کے پیچھے آمین آہستہ آواز میں پڑھتے تھے۔
نماز کا وقت ہوا تو میزبان مسجد کے امام نے مہمان جماعت کے سربراہ کو امامت کی گزارش کی اور ساتھ ہی تمام نمازیوں میں خاموشی سے یہ پیغام بھجوایا کہ ہمارے آئے مہمان الحمد شریف کے بعد ”آمین“ اونچی آواز میں پڑھتے ہیں اِس لئیے آپ سب بھی ”آمین“ با آواز بلند پڑھیں تاکہ مہمانوں کو اپنائیت محسوس ہو اور اس بات کا احساس نہ ہو کہ وہ مہمان ہیں۔
میزبان امام یہ بات نہیں جانتے تھے کہ مہمان جماعت کے سربراہ اپنی جماعت کو پہلے ہی اس کے بر عکس خاموشی سے یہ تاکید کر بیٹھے تھے کہ ہمارے میزبان الحمد شریف کے بعد ”آمین“ آہستہ آواز میں پڑھتے ہیں اس لئیے دورانِ نماز، آمین اونچی آواز میں نہ پڑھیں تاکہ میزبان کسی بھی قسم کے تَذبذُب کا شکار نہ ہوں۔
پھر ہوا کچھ یوں کہ جب نماز شروع ہوئی تو الحمد شریف کے اختتام پر مہمان جماعت کے تمام نمازیوں نے خاموشی سے ”آمین“ پڑھی جبکہ میزبان مسجد کے تمام نمازی، جو امام ابو حنیفہ رح کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے، آمین عموماً آہستہ آواز میں پڑھتے تھے، اُن سب نے آمین با آوازِ بلند پڑھی۔
یہ ہیں ہمارے بڑوں کے طریقے، ہمارے دین کی خوبصورتی، وہ اخوت و رواداری جو اسلام کا بنیادی عنصر ہے۔ خدارا، فرقہ واریت کی آگ میں مت جلیں۔
Коментарі